فیض احمد فیض اور ہندوستان - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2008/02/16

فیض احمد فیض اور ہندوستان

‫13۔فبروری
اُس عظیم شاعر کی تاریخِ پیدائش ہے جس کا شمار ان چند ناموں میں ہوتا ہے جن کے سہارے جدید اردو شاعری نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی ہے۔
فیض احمد فیض ۔۔۔ وہ نام ہے جو برسوں سے دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں ، حسن و عشق کے مدھر گیتوں اور جبر و استحصال کی طاقتوں کے خلاف احتجاجی ترانوں سے پہچانا جاتا ہے اور جو اپنے عہد کی انسانیت اور اس کے ضمیر کی موثر آواز ہے۔

ہندوستان کے مشہور فلمساز ستیہ جیت رے سے فیض کی بڑی یگانگت اور دوستی تھی۔ کاردار کی فلم "جاگو ہوا سویرا" ، جو بنگالی مصنف مانک بنرجی کے ناول کی بنیاد پر مبنی تھی ، کے مکالمے فیض نے لکھے تھے۔ مگر فلم کے مکمل ہونے پر وزارتِ اطلاعات نے اس کی نمائش پر پابندی عائد کر دی کہ اس فلم سے اشتراکیت کی بُو آتی ہے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے ایک زمانے میں فیض کو پروفیسر بننے کی پیش کش کی تھی مگر پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے اس کی اجازت نہ ملنے کے احتمال سے یہ تجویز عمل میں نہ آ سکی۔
ریاست مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے 1977ء میں کلکتہ یونیورسٹی میں اقبال کے نام پر پروفیسرشپ قائم کر کے فیض کو مدعو کیا مگر اُس وقت تک فیض بیروت میں رسالہ "لوٹس" کی ادارت قبول کر چکے تھے اور فلسطینی مجاہدین کے سرگرم رفیق بن چکے تھے۔

تقسیمِ ہند کے بعد فیض نے ہندوستان کے کئی سفر کئے جن میں بھوپال ، لکھنؤ ، دہلی ، حیدرآباد ، بمبئی ، کلکتہ ، پٹنہ ، الہ آباد کے یادگار سفر بھی شامل ہیں۔ ہندوستانی شہروں کے ان مشاعروں کے دوران مجمع کا یہ حال تھا کہ بڑے بڑے ہال میں نہیں سما سکتا تھا اور اکثر جگہ خصوصی پنڈال لگانے پڑے۔
بقول شاد عظیم آبادی ‫:
ڈھنڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے لئے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم


صبحِ آزادی

یہ داغ‌ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں


یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا رکے گا سفینہء غمِ دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں، بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رُخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں‌ آئی

1 تبصرہ:

  1. زبردست پوسٹ کی ہے فیض پر اور پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ آپ حیدرآباد میں اردو کی حالت پر بھی گاہے گاہے لکھا کریں۔

    جواب دیںحذف کریں