برقعہ اور مولانا وحید الدین خان - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/08/22

برقعہ اور مولانا وحید الدین خان

ہندوستانی ریاست کرناٹک کے شہر منگلور کے ایک کالج میں جب بی-کام سال اول کی مسلمان طالبہ عائشہ یاسمین پر کالج انتظامیہ نے اسکارف کے استعمال پر پابندی لگائی اور 12 دن تک کلاس میں آنے سے منع کر دیا تو طالبہ نے اس امتناع کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔

بی جے پی نواز اسلامی (؟) دانشور مولانا وحید الدین خان نے ، جو ملت کے اتفاقی مسائل سے الگ اپنی ایک مختلف راہ قائم رکھنے کے سلسلے میں خاصے بدنام ہیں ، آج ایک انوکھا بیان جاری کیا ہے۔
آئی اے این ایس کو جاری کردہ اپنے بیان میں مولانا محترم فرماتے ہیں :
برقعہ اسلام کا نہیں ، کلچر کا حصہ ہے۔ اسلام کسی ڈریس کوڈ کے نفاذ کو مخصوص نہیں کرتا۔
اسلام کے نام پر کوئی بھی ڈریس کوڈ لاگو نہیں کر سکتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بالکلیہ غیر اسلامی ہوگا۔ اگر ایک کالج کا قانون اس بات کا متقاضی ہے کہ برقعہ نہ پہنا جائے اور اسکارف نہ باندھا جائے تو اس قانون کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر آپ اس قانون سے متفق نہیں تو کالج چھوڑ دیجئے۔

مزید برآں ۔۔۔۔۔
جیسا باپ ویسی بیٹی کے مصداق ۔۔۔۔
مولانا محترم کی صاحبزادی فریدہ خان ، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی ایک اسلامی (؟) اسکالر ہیں ، عرض فرماتی ہیں :
برقعہ سخت گیر رویہ کی نشانی بن گیا ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ اس بات کو قبول کر لیں کہ برقعہ برصغیر کے کلچر کا حصہ ہے جس کا خودکش بم اندازی کے لئے غلط استعمال کیا گیا ہے۔ جب برقعہ کسی اسلامی ڈریس کوڈ کا حصہ نہیں ہے تو میں اپنی طالبات کو مشورہ دیتی ہوں کہ وہ یونیورسٹی میں برقعہ نہ پہنیں ، آخر یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے !

واقعی ہمیں بھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ۔۔۔۔ آخر برقعہ میں رکھا کیا ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان اس کو ایشو بنائے بیٹھے ہیں ؟ کبھی فرانس کے صدر برقعہ کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو کبھی مصر کی بیٹی کا بھری عدالت میں خون کر دیا جاتا ہے کہ وہ حجاب کی پابندی کرتی تھی۔
پھر ساری دنیا میں مسلمان حجاب کی حفاظت کی خاطر آواز اٹھاتے ہیں ، حجاب کو مسلم خواتین کی مذہبی شناخت اور خواتین کے اسلامی لباس کا ایک اہم حصہ باور کراتے ہیں ۔۔۔ مسلمانوں کا ایک ایک مکتبِ فکر یا مسلک یا فرقہ ، برقعہ کو مسلمان خواتین کا اسلامی لباس جانتا اور مانتا ہے۔ حتیٰ کہ احادیثِ صحیحہ کا انکار کرنے والوں نے بھی اگر چہرے کے پردے کا اگر انکار کیا ہے تب بھی ایسا دعویٰ قطعاً نہیں کیا کہ برقعہ خواتین کا اسلامی لباس نہیں ہے۔

اب ایک طرف یہ اجماع اور دوسری طرف ایک مولانا اور ان کی دختر نیک اختر کا بڑبولا پن ۔۔۔۔
مولانا کے لئے ہم وہی جملہ دہرائیں گے جو ان کے آبائی مقام اعظم گڑھ کے ایک نامور دانشور نے کہا تھا ایک بار :
ایمان بیچنا ہو تو سستا نہ کیجئے !!

4 تبصرے:

  1. Sorry at this moment I can't write in Urdu. I agree with you.

    جواب دیںحذف کریں
  2. برقعہ بے حیائی نہیں روکتی حیدرآبادی
    برقعہ عورت کیلئے زنجیر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. @ Mera Pakistan ، تبصرے کے لئے شکریہ بھائی۔

    @ SHUAIB ، شعیب بھائی ، بےشک آپ کو اپنے اظہارِ خیال کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ امتِ مسلمہ کے لئے حدود اور اصول و ضوابط انفرادی آراء سے قائم نہیں کئے جاتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. برقعے کے حوالے سے مجھ ناچیز کی رائے یہ ہے کہ اس کا مقصد خواتین کو بری نظروں سے محفوظ کرنا ہے اب اگر یہ کام بڑی چادر یا بڑا دوپٹہ کرتا ہے تو بھی ٹھیک ہے چہرہ اگر میک اپ سے پاک ہے اور خاتون نے سر پر حجاب لیا ہوا ہے اور جسم بڑے دوپٹے یا چادر سے ڈھکا ہے یا لباس اتنا ڈھیلا ڈھالا اور سادہ ہے کہ جسم کی نمائش نہیں کرتا تو بھی کچھ مضائقہ نہیں چہرے کے ڈھکنے کو کچھ لوگ آپشنل بتاتے ہیں لازم نہیں میرا خیال ہے کہ ایک سمجھ دار خاتوں یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اسے کہاں اپنا چہرہ چھپانا ہے اور کہاں کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں ،ملاؤں کو چاہیئے کہ وہ خواتین کو سمجھانے کے بجائے مردوں کو سمجھائیں کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھنا سیکھیں کم از کم مسلمان مردوں کو تو یہ طرز عمل ضرور اختیار کرنا چاہیئے،
    باقی شعیب صاحب کی اطلاع کے لیئے عرض کردوں کہ عورت کے لیئے زنجیر برقعہ نہیں مرد حضرات ہوتے ہیں ہمارے پاکستان میں یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں برقعے یا حجاب کے باوجود کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ ماشاءاللہ آگے ہی نظر آئیں گی اور وہ خود کو زیادہ پراعتماد بھی محسوس کرتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں