قیصر تمکین ۔۔۔ مدتوں رویا کریں گے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/12/16

قیصر تمکین ۔۔۔ مدتوں رویا کریں گے


جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی جناب قیصر تمکین 67 سال کی عمر میں 25-نومبر-2009ء کو عالمی اردو ادب کے منظر نامے سے رخصت ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

"قیصر تمکین" کی عرفیت اختیار کرنے والے اور لکھنؤ سے دینیات کی تعلیم حاصل کرنے والے حافظ قرآن "شریف احمد علوی" ، جن کے والد مشہور ادیب مشیر علوی ناظر کاکوروی ، دادا امیر احمد علوی اور پردادا محسن کاکوروی تھے ، ساٹھویں دہائی میں یوروپ منتقل ہوئے اور کئی دہائیوں کے قیام کے بعد لیڈز میں وفات پائی۔ پسماندگان میں بیوہ صبیحہ علوی اور تین دختران موجود ہیں۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی احمد ابراہیم علوی حیات ہیں جو لکھنؤ سے روزنامہ "آگ" کا اجراء کرتے ہیں۔

قیصر تمکین کا تخلیق کردہ ادب یوروپ میں آباد برصغیر کے مہاجرین کے سماجی اور خارجی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کی کہانیوں یا افسانوں میں ان مہاجرین کی خارجی حقیقت کا فنی تعین بھی ملتا ہے۔ سیاسی حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ قیصر تمکین کے یہاں روحانی چاندنی چٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اسی اور نوے کی دہائی میں اگر ایک طرف مرحوم کے دلچسپ افسانے ماہنامہ "شمع" (نئی دلی) میں شائع ہوا کرتے تھے تو دوسری طرف روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد) کے ادبی ایڈیشن میں مفید تنقیدی مضامین کا سلسلہ جاری رہا کرتا تھا۔
قیصر تمکین کو ان کے افسانوی مجموعہ "جگ ہنسائی" پر اترپردیش اردو اکیڈمی سے سال کی بہترین کتاب کا اعزاز حاصل ہوا تھا اور 2002ء میں لاہور کے نقوش ایوارڈ سے بھی وہ نوازے گئے تھے۔

اپنی فنی اور جمالیاتی اوصاف کی بدولت یوروپ میں تخلیق پانے والے ادب کو انہوں نے ایک نیا آہنگ دیا اور اس میں اتنی وسعت عطا کی کہ اس میں مہاجرین کی زندگی کی بصیرتوں کی سمائی ممکن ہوئی۔
یوروپ میں اردو لکھنے والوں کی نظریں اپنی رہنمائی کے لئے قیصر تمکین کے تخلیق کردہ ادب پر اٹھتی رہیں گی۔

قیصر تمکین کے افسانے ایسا مخلوط منظر پیش کرتے ہیں کہ جیسے قاری بیک وقت ایشیا اور یوروپ کے مناظر دیکھ رہا ہو۔ ان افسانوں کے ذریعے اپنے عہد کے انسانوں کی عادت و خصائل کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان انسانی کرداروں میں حسد ، ریا ، مکر ، مایوسی ، سردمہری ، بےحسی ، خودغرضی ، حرص و طمع پر مبنی کرداروں کی حیثیت نمایاں ہے۔ قیصر تمکین نے تمام موجودہ لسانیاتِ ادب کو آزمانے کے بجائے دو ٹوک اور حقیقی زبان کا استعمال کیا ہے۔

قیصر تمکین کے ایک تنقیدی مضمون کے ایک اہم اقتباس کا ذیل میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

ہندوستان میں اردو کا مجموعی طور پر جو حال ہے وہ اظہر من الشمس ہے ۔
اس کے باوجود لوگ رسالے نکالتے ہیں ، کتابیں لکھتے اور اخبارات کا اجراء کرتے رہتے ہیں ۔ بہت سے ادیبوں کو وقتاً فوقتاً خطوط ملتے رہتے ہیں کہ ایک نیا رسالہ ، نیا ادبی سنگِ میل ، نیا علمی ستارہ (یا آفتاب) معرضِ ظہور میں آنے والا ہے ۔ جو لوگ دوسری زبانوں میں لکھ کر روزی چلاتے ہیں وہ بھی اردو یعنی اپنی مادری زبان سے محبت کی بناء پر ان خطوط کااستقبال کرتے ہیں ۔
انگریزی میں لکھنے والے تو حقِ اشاعت ، معاوضے اور دیگر شرائط کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ مگر اردو کے بارے میں بالکل ہی جذبہءاخلاص کے تحت نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ کے طور پر آمادہء تعاون ہو جاتے ہیں ۔
ایک غیر زبان میں لکھنے پڑھنے اور مادری زبان میں اظہارِ خیال کرنے میں جو زبردست فرق ہے اس کی طرف تمام ماہرینِ نفسیات و تعلیم اچھی طرح اشارہ کرتے آئے ہیں ۔ لہذا مادری زبان یعنی اردو میں لکھنے یا اردو یا اردو اخبارات و رسائل سے ربط قائم رکھتے ہوئے ہم لوگ اُردو پر کسی طرح کا احسان نہیں کرتے بلکہ اپنا بنیادی فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ آج بھی تمام ترقی پذیر اقوام کا یہی ہے کہ وہ کس طرح قلم یا اہلِ قلم کا احترام کرتی ہیں کیونکہ ادعائے تہذیب کا نکتہ اولین آج بھی یہی ہے کہ اہلِ قلم کی بہتری کے بغیر کسی معاشرے کی بہتری کا تصور ہی مشکل ہے ۔
معلوم نہیں اردو سے محبت کرنے والے ادیب و مدیرانِ جرائد کہاں تک ہم کو اس تلخ نوائی پر معاف کرنے کے لیے تیار ہوں گے کہ صرف لکھنے والوں سے ہی ساری قربانیوں کی توقع کرنا ناانصافی کے علاوہ خود اپنے تہذیبی پسِ منظر کی چغلی کھانے کے مترادف ہے ۔
اگر کوئی ادیب و شاعر ، صحافی یا افسانہ نگار محض اپنے خلوص اور اپنی مادری زبان سے محبت کی بناء پر آپ سے تعاون کرے تو یہ اس کی کوئی سماجی کم مائیگی یا معذوری نہیں بلکہ محض جذبہء اخلاص ہے ۔ چنانچہ ایسے ادیبوں اور قلمی معاونین کو ان کی تخلیقات چھاپ کر اخبار یا رسالہ نہ بھیجنا اور یہ توقع کرنا کہ وہ خود اپنی لکھی ہوئی چیزیں خرید کر پڑھیں گے سفاکی ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی جرم ہے جو ملک و قوم کی ترقی کے ساتھ سماجی جرائم اور قابل دخل اندازی پولیس معاملات میں بھی شامل ہو سکتا ہے !!

(حیدر طباطبائی کے تاثراتی مضمون سے شکریہ کے ساتھ استفادہ)

عصر حاضر کا عظیم اردو دانشور/ از: آصف جیلانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں