سائنس سے واقفیت : انسان کا فطری عمل - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/09/24

سائنس سے واقفیت : انسان کا فطری عمل

ڈاکٹر وہاب قیصر
ڈاکٹر وہاب قیصر ، حیدرآباد کے معروف اقلیتی کالج "ممتاز کالج" کے پرنسپل رہ چکے ہیں اور فی الوقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ڈائرکٹوریٹ فاصلاتی تعلیم میں پروفیسر ہیں۔ حیدرآباد کے علمی حلقوں میں آپ سائنس داں ، ادیب اور دانشور کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ سائنس اور اردو ادب کے حوالے سے آپ نے کافی کچھ اہم ، منفرد اور دلچسپ تحقیقی مقالے تحریر کئے ہیں۔ آپ کے سائنسی مضامین بھی ہندوستان کے اردو رسائل و جرائد میں بہ پابندی شائع ہوتے ہیں۔ آپ کی تصنیف کردہ چند اہم کتب کے نام یوں ہیں :
پروفیسر وہاب قیصر کی کتاب "سائنس اور غالب" سے ایک دلچسپ اور معلوماتی اقتباس ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے اکثر صاحبین سائنسی امور کے جاننے کو ایک گمبھیر مسئلہ سمجھتے ہیں ، بلکہ شجرِ ممنوعہ کی طرح اس سے دور بھاگتے ہیں۔ جبکہ سائنس حسن ، حقیقت اور صداقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔
یوں تو سائنس لاطینی لفظ SCIENTIA سے ماخوذ ہے ، جس کے لفظی معنی "علم" کے ہوتے ہیں۔ فلاسفر ، مفکرین و ماہرینِ سائنس نے اس کے مفہوم کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔
افلاطون کہتا ہے :
سائنس ادراک کے سوائے کچھ نہیں ہے

سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ سائنس کا مفہوم چاہے کچھ بھی ہو ، لیکن حقیقطاً یہ فطرت کا مطالعہ ہے ، جس میں مشاہدات اور تجربات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ تجسس انسانی جبلت میں شامل ہے جو اس کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ فطرت میں وقوع پذیر ہونے والے عوامل کو جانے ، سمجھے اور ان کی حقیقت کو پہچانے۔ علاوہ اس کے سائنس کا جاننا انسان کا فطری عمل ہے۔ اس کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ نظریات اور کلیات پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کیا جائے نہ کہ عملی طور پر تجربات انجام دئے جائیں۔

فطرت میں رونما ہونے والے واقعات ، مناظر کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بنی نوع انسان جب ان پر گہری نظر ڈالتا ہے تو اس کے سامنے کئی ایک سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب وہ ان سوالات کے جواب ڈھونڈ نکالتا ہے تو گویا وہ ان کی حقیقت کو پا لیتا ہے۔
اسی حقیقت کو جب ایک سائنس داں جان لیتا ہے تو وہ اس کے لئے نظریات اور کلیات کی تدوین کرتا ہے جو سائنس کے میدان میں ایک لمبی جست لگانے کے مترادف ہوتا ہے، جس کو عام زبان میں "سائنس کی ترقی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح جب کوئی ایجاد و اختراع کا ظہور ہوتا ہے یا کوئی تکنیک رواج پاتی ہے تو ایک نیا نظام عالم وجود میں آتا ہے جو ہمارے کام کرنے کی صلاحیت اور مشکلات سے نمٹنے کی قابلیت میں اضافہ کرتے ہوئے ہمارے لئے مختلف سہولتوں کی فراہمی کا باعث بنتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک نئی ٹکنالوجی فروغ پاتی ہے اور ہمارے نظام حیات ، رہن سہن ، صحت و طبابت ، صنعت و حرفت یا ذرائع حمل و نقل ، مواصلات اور تفریح و طبع پر راست اثرانداز ہوتی ہے۔

3 تبصرے:

  1. درست فرمايا ہے پروفيسر وہاب قيصر صاحب نے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہر انسان میں ایک سائنسداں موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی دلچسپی اور ملنے والے مواقعوں کے اعتبار سے سامنے لاتا ہے!

    جواب دیںحذف کریں
  3. ابھی صرف تحریر پڑھی ہے، تبصرہ گھر پہنچ کر کرں گا ابھی دفتر سے چھٹی کا وقت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں