پڑھنا ہو تو اردو کی کتاب پڑھئے ۔۔۔ مگر ! - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2012/05/27

پڑھنا ہو تو اردو کی کتاب پڑھئے ۔۔۔ مگر !

بہرکیف !
عرض کرنا یہ ہے کہ کوئی بھی مضمون لکھنے کے لئے کسی نہ کسی موضوع کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آجکل کے گھاگ "لکھاری" بغیر کسی موضوع کے بھی صفحوں کے صفحے سیاہ کر ڈالنے کی خوب سکت رکھتے ہیں جیسے بعض فلمساز اسکرپٹ کے بغیر فلمیں بنا لیتے ہیں۔ مگر ایسے کام کرنے کے لئے بہت ہی غیرمعمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور میں آپ کو بتا دوں کہ اس معاملے میں اردو ادب کے "مبصرین" سب سے آگے ہیں!
یہ حضرات کوئی بھی کتاب پڑھے بغیر اس کتاب پر سیر حاصل تبصرہ فرما سکتے ہیں۔ بعض مبصرین کے بارے میں تو یہاں تک بھی مشہور ہے کہ وہ صرف کتابوں کو سونگھ کر کتاب پر چٹخارے دار مضمون لکھنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔۔۔

دیکھئے ! بات دراصل ایسی ہے کہ کتاب پڑھنا بےکار لوگوں کا مشغلہ ہے۔ اس کے لئے لمبی فرصتیں درکار ہوتی ہیں۔ اور آجکل کی زندگی اتنی بھاگ دوڑ بھری ہو گئی ہے کہ ہم جیسے پڑھے لکھے لوگوں کے پاس اخبار پڑھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا ، ان دنوں یوں ہے کہ اخبار پڑھنے کے نام پر اخبار "دیکھا" جا رہا ہے، بہت ہوا تو سرخیاں پڑھ لیں اور اپنے مطلب کی خبروں پر ایک نگاہ طائرانہ ڈال کر اخبار کو طائر سربریدہ کی طرح ایک طرف پھینکا اور فرہاد امروز کی مانند اپنے شیشے جیسے ہاتھوں میں غم روزگار کا تیشہ و توشہ اٹھا کر گھر سے نکل پڑے۔ اب بھلا ایسے میں ضخیم اور ثقیل کتابوں کو پڑھنا اور انہیں بچانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
یہ آجکل جو مریضانِ عشق و مریضان رزق تابڑ توڑ دست و قئے کی شکایت میں مبتلا پائے جا رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ اس کا ذمہ دار خواہ مخواہ موسم اور ماحولیات کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔۔۔ سچ پوچھئے تو یہ سب ان کھٹی ، بدمزہ ، آلودہ اور ناقابل ہضم کتابوں اور شعری بیاضوں کے مطالعے کی وجہ سے ہو رہا ہے جن کی اشاعت کے لئے حکومت نے مصنفین کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔۔۔

اس وحشت خیز گرمی میں جہاں کولر کے سامنے بیٹھ کر آئس کریم کھاتے ہوئے بھی سرکاری کرمچاریوں کے پسینے چھوٹ رہے ہیں وہاں بغیر پنکھے کے دیوان خانوں میں گرما گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے شعرائے کرام طرحی مصرعوں پر گرہ لگانے میں گرمجوشی کے ساتھ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ۔۔۔
محفل افسانہ سجی ہوئی ہے ، کتابوں کی رسم اجرا کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں ، قلمکاروں کی شان میں تہنیتی پروگرام رکھے جا رہے ہیں ۔۔۔
جبکہ یہاں آم کھا کر گھٹلی پھینکنے کی فرصت نہیں ہے اور یار لوگ چاہتے ہیں کہ مابدولت ان جلسے جلوسوں میں اپنی آمد درج کروائیں۔۔۔ گرمی کا یہ عالم ہے کہ مرغیاں ابلے ہوئے انڈے دے رہی ہیں بلکہ بعض مرغیاں تو انڈے کے بجائے ڈائرکٹ چوزے کو جنم دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ دھوپ کی تپش کو دیکھتے ہوئے خلق خدا حسب توفیق اپنے اپنے بنگلوں اور اپنے اپنے جھونپڑوں میں دبکی پڑی ہے اور ایک یہ مخلوق ہے کہ لکھنے پڑھنے میں منہمک اور محافل میں شریک ہونے کے لئے گلی گلی نگر نگر کی خاک چھانتی پھر رہی ہے ۔۔۔ لاحول ولا قوۃ !!!

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، میں یہ عرض کر رہا تھا کہ فی زمانہ کتب بینی کی فرصت کسی مائی کے لال کے پاس نہیں ہے سوائے ان کے جو معشوقۂ نادیدہ کے انتظار میں رات رات بھر تنہا کھاٹ پر پڑے کھانستے رہتے ہیں۔
یہ جو ارباب حل و عقد ثانی و ثالث جناب فاروقی صاحب کی لکھی ہوئی طویل داستان "کئی چاند تھے سرآسمان" کا مکمل مطالعہ کر چکنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، بخدا مجھے ان لوگوں پر شک ہے!
مانا کہ اگلے وقتوں کے پڑھاکو احباب قصۂ چہار درویش ، داستان امیر حمزہ ، مثنوی باغ و بہار اور فسانہ عجائب کے علاوہ فسانۂ آزاد کی جلدوں کی جلدیں جلدی جلدی ہضم کر ڈالتے تھے ، لیکن بھلا بتائیے تو یہ کمزور بصارتوں اور کمزور معدوں والی نسلیں بھلا کس طرح ایسی ضخیم اور لحیم شحیم کتابیں الف سے والسلام تک ہضم کر سکتی ہیں؟!!

ایک سڑک ناپ سروے کے مطابق وقت بہت قیمتی ہو گیا ہے اور بےکار و بےروزگار بھائی لوگوں کا وقت تو کچھ زیادہ ہی قیمتی ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے "گھڑی کی فرصت نہیں ، دمڑی کی آمدنی نہیں"
ارے ہمارے یہاں تو وقت کی ایسی قلت چل رہی ہے کہ درسی کتب بھی اپنے بھرپور مطالعے کو ترس رہی ہیں کیونکہ ان میں بھی کلیدی اقتباسات کا ایک حصہ الگ سے رکھا جانے لگا ہے تاکہ طالب علم مکمل اسباق کے مطالعے کی زحمت سے بچ جائے۔
اب ہر چیز Short ہو گئی ہے ، کیوں نہ ہو Short-Cut کا زمانہ چل رہا ہے۔ مگر خدا رکھے اردو کا شاعر اب بھی دو غزلہ ، سہ غزلہ اور چو غزلہ لکھا جا رہا ہے۔
کمپیوٹر تکنالوجی کے دور میں بھی اس جیالے کی زبان پر وہی گھسا پٹا مصرع ہے :
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا


***
مضمون (گرمیاں اور سرگرمیاں) : سردار سلیم
بشکریہ : روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن ، 27-مئی-2012ء

1 تبصرہ:

  1. میں آج بھی کامک پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں، مگر افسانے، ناول، شعر و شاعری جیسی کتابیں پڑھنے سے سخت نفرت ہے ـ ہاں البتہ ننھی منی کہانیاں ضرور پڑھ لیتا ہوں جو سبق آموز ہوں ـ
    بھئی پاشا یہ "یدطولیٰ" کے معنے معلوم ہو تو مجھے بھی بتانا!!!

    جواب دیںحذف کریں